مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پرتگال کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغرب نے اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کو دوبارہ لاگو کرنے کی دھمکیاں جاری رکھیں تو ایران کے اندر جوہری بحث ممکنہ طور پر (ایٹمی) ہتھیار رکھنے کی طرف مڑ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے پاس اس سے پہلے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود تھی لیکن یہ مسئلہ ملک کی سلامتی کی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے مغرب کے ساتھ ایران کے تعامل کی ضمانت موجود نہیں ہے، اس وقت ایران میں یہ بحث ہے کہ شاید مذاکرات کی پالیسی غلط تھی۔ کیونکہ یہ ثابت ہوا کہ ہم نے وہ سب کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے لیکن جب پابندیاں ہٹانے کی ان کی باری آئی تو وہ مکر گئے اور حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔
عراقچی نے کہا کہ اگر یورپی ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرتے ہیں تو ایران میں سب کو یقین ہو جائے گا کہ ہاں یہ نظریہ (مغرب کے مذاکرات) غلط تھا۔
عراقچی نے مزید کہا کہ ایرانی اور یورپی مذاکرات کاروں کی جمعے کو جنیوا میں ہونے والی ملاقات درحقیقت یہ دیکھنے کی ایک فکری مشق ہے کہ آیا واقعی موجودہ صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ میں اس اجلاس کے بارے میں پر امید نہیں ہوں کیونکہ مجھے یقین نہیں ہے کہ آیا ایران صحیح فریق سے بات کر رہا ہے یا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے محاذ آرائی کی پالیسی کا انتخاب کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرارداد کے بعد ہزاروں نئے اور انتہائی جدید سینٹری فیوجز لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ مغرب کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اب بھی تعاون کا خواہاں ہے۔ ہم فی الحال 60% سے زیادہ انرجی افزودہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ فی الحال ہمارا فیصلہ ہے۔ میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ ہم نے اس مسئلے کو باعزت طریقے سے حل کرنے کے لیے تعاون کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔
ایران نے روس کو بیلسٹک میزائل نہیں دئے
عراقچی نے واضح کیا ایران نے روس کو بیلسٹک میزائل نہیں دئے ہیں۔ تہران کا ماسکو کے ساتھ فوجی تعاون ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور مکمل طور پر جائز ہے۔ بلاشبہ ایران نے یوکرین کی علاقائی سالمیت کی حمایت کی ہے اور کر رہا ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ اسرائیل اب لبنان میں جنگ بندی کے لیے کیوں تیار ہے؟ کیونکہ وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا، اگرچہ حزب اللہ کو نقصان پہنچا ہے، لیکن زیادہ تر نقصان اس کی قیادت اور اعلیٰ کمانڈروں کی سطح پر ہوا ہے، حزب اللہ کی مین باڈی اور جنگی ڈھانچہ برقرار ہے۔
حزب اللہ اور دیگر ممزاحمتی گروہ ہمارے پراکسی نہیں ہیں
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ ہمارے پراکسی نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے دوست کے طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے ہم نے انہیں یا خطے کے کسی دوسرے مزاحمتی گروپ کو ہدایات نہیں دیں، بلکہ وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اسرائیلیوں کی شکست کا ثبوت ہے۔ وہ وہاں حماس کو تباہ کرنے کے لئے گئے تھے لیکن اب انھیں شکست کھا کر حماس سے معاملہ کرنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس لئے غزہ میں جنگ بندی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
آپ کا تبصرہ